Archive | May 2021

آرٹ

ہوا کچھ یوں کہ کل ایسے ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ واہ۔۔یہ آرٹسٹس۔۔۔دنیا کی کتنی پیاری ہستیاں ہیں جو اپنے فن سے قدرت کے جلوؤں کو کنیوس میں مقید کر لیتی ہیں۔بس یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ میرے اندر بھی آرٹسٹ بننے کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا امڈا آیا اور یوں میں نے پکاسو بننے کی ٹھان لی۔
سوچ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے سب سے پہلے تو رنگ حاصل کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی۔گھر میں موجود رنگ برنگی کچی پکی پنسلیں، آدھے سوکھے مارکر اور واٹر پینٹ کی ایک کٹ جس پر رنگ پہلے ہی ایک دوسرے کے اوپر بہہ کر عجیب شیڈز بنا چکے تھے سمیٹ کر میں نے گویا فنکاری کا آدھا سفر طے کر لیا۔
لو جی! رنگوں کا خزانہ تو ہاتھ ْآ گیا مگر اب ان سے بنایا کیا جائے؟
سوچ کا گھوڑا سرپٹ دوڑایا تو چشم تصور میں فلموں اور ڈراموں کی ہیروئین کو پہاڑوں پر کھڑے سرسبز پہاڑوں کی تصویر بناتے ہوئے دیکھا۔ پھر سر جھٹک دیا کہ بھئی اصلی اور خیالی زندگی سے کچھ ملا جلا خیال چراتے ہیں۔ تبھی دماغ کی بتی جلی اور میں نے باہر کا رخ کیا کہ چلو جو نظارہ سامنے آیا اسی پر ایک شاہکار تخلیق کرلیناچاہیے۔
باہر نکلتے ہی ایک خوبصورت نظارہ گویا منتظر تھا کہ اسے مجھ جیسا آرٹسٹ کینوس میں قید کر لے۔ واہ!
سرسبز میدان۔۔دور غروب آفتاب سے کچھ دیر پہلے کا آتشی سورج اور میدان میں چرتی کچھ گائیں۔ واہ۔۔۔یہ تو آئیڈیل نظارہ ہے۔ بھلا کون نہ قدرت کے اس شاہکار کو صحفے پر سمونا چاہے گا؟
اب آسمان، گائے اور سورج تو پہلے ہی اپنی اپنی جگہ سیٹ تھے لہذا مجھے ہی اپنا اینگل ایڈجسٹ کر کے ایک جگہ بیٹھنا پڑا۔ شومئی قسمت کہ اسی جگہ گھاس پر کچھ کانٹے سے اگے ہوئے تھے جنہیں ہماری پنجابی میں “گرسالے” کہا جاتا ہے۔ اس تشریف آوری کے بعد دل نے خود کو سمجھایا کہ ہر بڑے فنکار کی زندگی میں اس طرح کی چھوٹی موٹی مشکلات تو آتی ہی ہیں۔ ان سے گھبرانے کے بجائے انکا سامنا کرنا ہی بہادری کی علامت ہے۔ سو ایک ایک کر کے خود کو کانٹوں سے جدا کیا۔
اگلا مرحلہ تھا کہ یہ عظیم فن پارہ شروع کہاں سے کیا جائے؟ پہلے آسمان بنایا جائے یا زمین پر چرتی گائے؟ سورج آسان ہوتا ہے یہی سوچ کر سب سے پہلے سورج بنانا شروع کیا۔گول دائرہ کچھ بیضوی سا بنا مگر چلو گول تو دنیا بھی نہیں ہے۔ویسے بھی سورج پر گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے تھوڑا بہت پگھل کر سائیڈ پر نکل بھی سکتا ہے۔ بس دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ پھر رنگ بھرنے شروع کیے۔ پیلا سورج بنا کر جو نارنجی رنگ سے اس آرٹسٹ نے سٹروکس دیے۔ یوں لگا جیسے انڈا فرائی کرتے ہوئے زردی ٹوٹ گئی ہو۔
مگر اس راوی نے اپنا ہاتھ توڑا نہ برش۔ بلکہ انہی ہاتھوں سے عین سورج کے نیچے ہری ہری گھاس بنا ڈالی پھر باری آئی گائے بنانے کی۔ تو جناب گائے بنانا شروع کی۔ گو گائے چرتے ہوئے ایک اچھا ماڈل ثابت نہ ہو رہی تھی مگر جب آرٹسٹ اتنا منجھا ہوا ہو تو اڑتی ہوا کو بھی پینٹ کرنا مشکل نہیں لگتا۔ بڑے انہماک سے گائے کا سر، دھڑ اور کسی حسینہ کی مانند بڑی بڑی آنکھیں بنائیں۔
جلدی جلدی پینٹنگ مکمل کی۔ لیکن اصل فنکار تو وہی ہے نا جو اپنے فن کا اچھا نقاد بھی ہو۔ لہذا تنقیدی نظروں سے جائزہ لیا کہ اس شاہکار میں بھلا کمی کیا ہے۔؟
اب پوری تصویر کا حال ملاحظہ ہو۔۔۔
گائے تو آئیوڈین کی کمی کا شدید شکار نظر آ رہی تھی کیونکہ اسکا پیٹ کسی چھپکلی کی کسی ہوئی کمر کی مانند بل کھا رہا تھا اوپر سے گائے کی نشیلی آنکھیں پتہ دے رہی تھیں کہ گائے کل رات سے سوئی نہیں ہے۔ نیز دم بھی جیسے بندر سے ادھار مانگ کرچپکائی ہو ۔سورج کا حال پہلے ہی پتلا ہو کر بہہ چکا تھا۔ اور ہری ہری گھاس بھی فٹا رکھ کر ایک ترتیب سے یوں اگی ہوئی تھی کہ ایک پتہ بھی اوپر نیچے نہ تھا ۔
کچھ دیر تنقیدی نظروں سے جائزہ لینے کے بعد میں نے چپ چاپ تصویر وہیں اُڑا کر موبائل اٹھایا اور کیمرہ نکال کر تصویر لے لی۔ صرف پینٹر ہی تو آرٹسٹ نہیں ہوتے نا۔فوٹوگرافر بھی بڑے فنکار ہوتے ہیں۔ یہی سوچ کر دل مطمئن سا ہو گیا۔

بوٹی

“بوٹی”
مڈل کلاس لوگوں میں” بوٹی” کو وہی درجہ حاصل ہے جو امیروں میں جائیداد کو۔۔۔ یعنی جتنی ہو اتنی ہی کم ہے۔ پلیٹ میں کم از کم اتنی تو ضروری ہیں کہ نیت پیٹ سے پہلے نہ بھرنے پائے۔۔ اور پیٹ نظر سے پہلے ہرگز سیر نہ ہو۔
بوٹی کھانے کا بھی سلیقہ اور طریقہ طے ہے۔ ایک دم سے کھا لی تو سمجھو حق ادا نہ ہوا۔ ریشہ ریشہ اتارتے وقت سرور کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے بعد میں وہی ریشے دانتوں سے نکالتے سمے ہوا ہو جاتی ہے۔
ہمارے بھائی جان بوٹی کو اسکے پورے اعزاز کے ساتھ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسکے ساتھ سبزی یا دال کا لاحقہ لگانا بوٹی کی شان میں ہتک گردانتے ہیں۔اسی طرح ہمارے ایک رشتہ دار کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ ایک بوٹی بچا کر رکھتے ہیں کہ آخر میں بوٹی کے سواد کے ساتھ ہی رسمِ شکم بھروائی کا اختتام ہو۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دیسی گھرانہ ہو اور بوٹی پر لڑائی نہ ہو۔ بلکہ کئی خوشی و غمی کے مواقع پر وجہ فساد بوٹی کا نہ ملنا ہی ہے۔ اگر مناسب مقدار میں نہ ملیں تو رشتےدار آپکی نوچ کھانے کو تیار رہتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو پلیٹ میں بوٹیوں کی تعداد دیکھ کر اگلےکے دل کا حال تک بتا دیتے ہیں۔ اگر کم ہوں تو سمجھو رشتےدار کے دل میں کھوٹ ہے اور زیادہ ہوں تو جان لو کہ بوٹیاں کھلا کھلا کر آپکو وقت سے پہلے بلڈ پریشر کا مریض بنانا چاہتا ہے۔
بوٹیوں میں اونچا درجہ ملائم بوٹیوں کو حاصل ہے کہ یہ منہ میں کم نظرمیں زیادہ پھنستی ہیں۔ہماری پوٹھوہاری میں تو دلہن کو بھی وہٹی سے بدل کر اب “بہوٹی” کر دیا گیا ہے۔ لہذا ملائمت والا کلیہ یہاں بھی لاگو ہو گا۔
ہمارے ہاں صرف شنو، بے بی، گڈو اور پپو ہی نہیں بلکہ بوٹیوں کو بھی انکی شکل و ذائقہ کے حساب سے “نک نیمز” دیے جاتےہیں۔مثلا “چیسٹ پیس” کو گدا کہتے ہیں۔ سفید ہڈی والی کو “مرکڑی” ، اوجڑی اور زبان کو “تولیے والی بوٹی” ، پوٹے کو “ٹافی” اور ران کو “چوڑی” کہتے ہیں۔
میزبان بھی مہمان کی تواضح ران سے کر کے سینہ “چوڑا” کرتا ہے۔
بوٹی تو بوٹی۔۔ ہمارے ہاں ہڈیاں بھی خوب عزت افزائی پاتی ہیں۔کئی لوگ تو محض دل لگی کے لیے ہڈیوں کے ساتھ کئ کئی منٹ تک پیار محبت بانٹتے پھرتے ہیں۔ جو لوگ پلیٹ میں ہڈی چھوڑ دیں پھر انکی وفاداری پر ہمیشہ شک کرنا چاہیے۔
ابھی کل پرسوں کسی دعوت پر ایک کتا ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ شاید کھانے کی بچی ہڈیاں اسکے آگے ڈال دی جائیں گی۔مگر ہم نے بھی بھرپور عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بوٹی اسکو دے کر خود ہڈی کے ساتھ پورے پندرہ منٹ تک عیاشی کی ۔۔

فاطمہ عمران

یارم مجنوں

یارم نے باز نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ ادھر حسینہ کی ڈولی اٹھنے جا رہی تھی۔ مگر یارم کا جنازہ تھا کہ اٹھنے سے انکاری۔ یارم کا شمار ان چند عشاق میں ہوتا ہے جو محبوبہ کے سامنے جا کر محض اس نیت سے “زہر کھا لوں گا” کہتے ہیں تاکہ محبوبہ انہیں روک لے۔
صبح سے آہیں تو بھر ہی رہے تھےمگر پچھلی چند ساعتوں سے تو باقاعدہ مرغ بسمل کا گمان ہو رہا تھا۔ہم نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یارم یک طرفہ محبت کا یہی انجام ہوتا ہے۔مگر بضد تھے کہ اس پریم کہانی کے دو ہی کردار ہیں۔ ایک وہ اور دوسری بےوفا حسینہ۔
خیر قصہ کچھ یوں ہوا کہ حسینہ کی شادی خانہ آبادی اگلے ہفتے “بےقرار” ہونا طے پائی تھی ۔اسی غم میں ہمارے ساتھ ناشتے میں حلوہ پوری اور پائے کھانے کے بعد یارم معدے کے غبار کو دل کا درد سمجھے بیٹھے تھے اور اب ہم سے مدد کے خواستگار تھے۔
ہم نے انہیں غیرت دلانے کی کوشش کی کہ کس طرح حسینہ کے بھائیوں نے جذبہِ خیر سگالی کے تحت انہیں ناکوں چنے جگالی کروا دیے تھے۔ مگر ان کا درد کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔اوپر سے یارم کے اندر حسینہ کو ایک آخری بار دلہن بنے دیکھنے کے اژدھے نے جو جنم لے لیا تھا ہمیں معلوم تھا کہ اب ان کی جان لے کر ہی ٹلے گا۔ لہذا اسی خوش خیالی میں ہم نے انکی مدد کرنے کی حامی بھر لی۔
شادی کے دن صبح ہی صبح یارم آن دھمکے۔ خراب حلیہ تو ایک طرف بکھرے بےترتیب بال گرد سے بھی اٹے ہوئے تھے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ سر پر خاک ڈال کر آئے ہیں کیونکہ اگر الوداع سے پہلے محبوبہ قیس کو مجنوں بنے دیکھ لے تو اسکا دل پسیج جاتا ہے۔
“مجنوں کو زمانے بھر کے پتھر بھی تو پڑے تھے۔ دیکھ لیجیو۔ اپنے ساتھ ہماری ہڈیاں بھی تڑواؤ گے کیا”
حسب معمول انہوں ہمارا ارشاد سنی ان سنی ہی کیا۔ پھر جیب سے کاغذ کا مڑا تڑا ٹکڑا نکالا اور کسی ماہر جاسوس کی طرح میز پر بچھا کر بولے “پورا پکا پلان ہے۔ یہ حسینہ کے گھر کا نقشہ ہے یہ طے کرنے کیلیے کہ ہمیں چھپ چھپا کر کس جانب سے داخل ہونا ہے تاکہ باراتی بھی نہ دیکھ پائیں اور حسینہ کا دیدار بھی ہو جائے”.
“مگر یارم حسینہ کے دو مرلے مکان کی چھت تو آپ کی چھت سے اس قدر ملی ہوئی ہے کہ حسینہ کی انگیا کئی بار آپ نے اپنی ہی چھت پر سکھائی ہے۔پھر اس مہا نقشے کی کیا ضرورت ہے۔ کون سا بھول بھلیاں ہیں جن میں آپ کھو جائیں گے۔سیدھا چھت پر چڑھ کر حسینہ کی چھت پر ہو لیتے ہیں”
یارم کو میری بات ناگوار گزری۔ انکے مطابق یہ کوئی شریفانہ فعل نہیں تھا وہ بھی عین شادی کے وقت۔ویسے بھی عاشقان چھتیں نہیں دیوار پھلانگ کر جاتے ہیں۔
خیر حسینہ کے گھر کے سامنے پہنچ کر انہوں نے دروازے ہی کی جانب قدم پڑھا دیے کیونکہ تین اطراف سے تو حسینہ کا گھر پڑوسیوں سے ملحق تھا۔ چھت کے علاوہ ایک دروازہ ہی بچتا تھا جس سے اندر تشریف لے جانے کی صورت نکل سکتی تھی۔
یارم نے ہمیں تنبیہہ کی کہ اگر اندر سے انکی چیخیں سنائی نہ دیں تو پورے پانچ منٹ کے بعد ہم بھی اندر تشریف لے آئیں۔ بصورت دیگر انکی تدفین عین نکاح کے وقت ہی کی جائے۔
اس رقت آمیز وصیت کے بعد ہم نے انہیں الوداع کر دیا۔
قصہ مختصر ہم نے پانچ منٹ کو جان بوجھ کر آدھے گھنٹے پر محیط کر دیا تاکہ انکے کے بچنے کی کوئی صورت نہ بچے۔ پھر محلے میں اپنی نیک نامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حسینہ کے گھر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اندر پہنچ کر کوئی خاص کھلبلی سی محسوس نہ ہوئی۔
حیرت کا سمندر اپنے اندر ہی موجزن لیے ہم مدد کے بہانے سے دلہن کے کمرے کی طرف ہو لیے۔
دروازے پر پہنچ کر ہمارے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حسینہ آنکھیں پھاڑے، منہ کھولے ایک ٹک دیکھ رہی ہے اور یارم کو بجلی کے جھٹکے لگ رہے ہیں۔۔ مگر نہیں ۔۔ سوئچ تو کافی دور تھا۔۔۔پھر کوئی دورہ وغیرہ تو نہیں پڑ گیا۔ بھاگ کر مدد کیلئے یارم کے قریب ہو لیے۔ آخر دوست مشکل وقت میں کام نہ آئے تو بھلا کیا فائدہ ایسی دوستی کا؟
قریب پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ یارم خود کو چاکلیٹی ہیرو سمجھے “چین پائے گا نہ تو۔۔۔بچ کہ جائے گا نہ تو ۔۔ہوگا تیرا انجام برا” پر لہک لہک کر ڈانس کر رہے ہیں۔
دھت تیرے کی۔۔یارم یہ غلط گانا ہے۔ بےوفائی یا جدائی والے گانے پر یہ مرگی کا مظاہرہ کرنا تھا۔۔ہم کہتے ہی رہ گئے مگر وہ یارم ہی کیا جو ہماری بات سن لیں۔ ۔۔
خیر انہیں گھسیٹ کر کوستے ہوئے باہر لائے کہ آخری دیدار تو ہو چکا تھا۔ صد شکر کوئی ہنگامہ نہ ہو گیا تھا۔
جانے یارم کی محبت میں طاقت تھی یا حسینہ کی بےعقلی کہ حسینہ نے پھر عین شادی کے وقت انکار کر دیا۔

فاطمہ عمران

“اے پنڈی اے باوا جی”

کہتے ہیں پنڈی پہلے مریخ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔کسی “ہینگ اوور” کے نتیجے میں زمین پر آ گرا اور وہیں بالوں میں لگی جیَل کی طرح چپک گیا۔
ہمارے ایک ڈرائیور صاحب کا کہنا تھا کہ پنڈی بس ایک سڑک کا نام ہے جو گوجر خان سے تھوڑا آگے شروع ہو کر ٹیکسلا سے تھوڑا پہلے ختم۔۔ لیکن اتنے سے پنڈی میں بھی دنیا جہاں کی مخلوقات کا بسیرا ہےکیونکہ پنڈی کی زمین سخت مگر دل “مردانہ” ہے۔
پنڈی کی مشہور چیزوں میں پہلا نمبر پنڈی بوائے کا ہے۔
پنڈی بوائے کسی خاص صنف یا جنس کا نہیں ۔۔ بلکہ ایک سوچ اور ایک نظریے کا نام ہے۔۔۔ اور وہ ہے “” ما لائف ما رولزز”۔۔ ۔یہ نعرہ اس قدر عام ہو چکا ہے
کہ اب پنڈی کے ہر گھر میں نیلی ٹینکی،کالا چشمہ اور یہ نعرہ ضرور سننے کو ملیں گے۔۔۔۔
پنڈی بوائے کی بزدلی کا یہ عالم ہے کہ اپنی محبوبہ کا نمبر بھی باجی کے نام سے سیو رکھتے ہیں. اور بہادر اتنے کہ رزلٹ کارڈ پر ابو کے سائن کر کے دے آنا انہی کی ایجادہے۔ان سے زیادہ شوخیاں اور مکھیاں کوئی اور نہیں مار سکتا۔۔
سیانے کہتے ہیں کہ پنڈی کے لوگ اور موسم دونوں کا ہی اعتبار نہیں کرنا چاہیے ۔۔ یہ سیانے چونکہ خود پنڈی کے رہائشی تھے لہذا انکی اس بات کا اعتبار بھی جائز نہیں ۔
پنڈی میں دو شخصیات کافی مشہور گزری ہیں ایک “راجا جی” اور دوسرے “باوا جی”. اور دونوں ہی “بہوں رامی جاکت ہیں”…۔
پنڈی کی سرکاری ڈش “دُمچی” ہے۔ جن یار دوستوں کو نہیں پتہ انہیں بتائے دیتے ہیں کہ مرغ مسلم کی تشریف کو دمچی کہا جاتا ہے۔ لہذا جب بھی پنڈی جائیں دُمچی ضرور “یس کرائیں”.
گو پنڈی اب پرانا پنڈی نہیں رہا مگر ڈیٹ مارنے کیلیے آج بھی لوگ یونیورسٹییوں کا ہی رخ کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ وقت کے بہت پابند ہیں۔ دو بجے کا ٹائم دیا ہو تو پورے چار بجے پہنچ جاتے ہیں۔ پنڈی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں کی لڑکیوں کے منہ اور پیروں کا رنگ یکساں ہے۔
پنڈی ابھی لاہور اور کراچی سے یوں پیچھے ہے کہ یہاں گدھے، کتوں اور سانپوں کا گوشت بہرحال ابھی تک “آفیشلی” نہیں چکھا گیا۔
ہماری ایک دوست پنڈی اور لاہور کا موازنہ یوں کرتی ہیں کہ “پنڈی میں ایک لڑکی کے پیچھے سات آٹھ لڑکے ہوتے ہیں جبکہ لاہور میں ایک لڑکے کے پیچھے سات آٹھ لڑکیاں پڑی ہوتی ہیں”.

یارم منحوس

یارم کی وجہِ شہرت یار باشی سے زیادہ انکی ” اوباشی” بن چکی ہے۔ اس پر مستزاد کہ ہماری خوش باشی انکو دونوں آنکھوں سے نہیں بھاتی ۔ لہذا اکثر ہی ہماری ناک میں دم اور سر پر بم پھوڑے رکھتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہوا کہ یارم جو اپنی نالائقی کے سبب اب تک کوئی “پروفیشن” اپنانے میں باقاعدہ ناکام تھے اور اپنی ہر ناکامی کا سبب دانستہ طور پر اپنی منحوسیت کو ٹھہراتے تھے۔اب انہوں نے اپنی بدقسمتی کے مرغ بسمل کو “ہیر ڈریسنگ” کے بحر ظلمات میں دوڑانے کا تہیہ کر لیا حالانکہ ان کا قینچی سے رشتہ بندر کا ادرک کے سواد سے تعلق جتنا ہی تھا۔۔۔

ہم نے حسب معمول سمجھایا کہ یارم ” خر” کا جہاں اور ہے “خیل” کا جہاں اور۔۔مگر یارم تھے کہ بدستور بزاخفش۔۔۔

چند ہی دن بعد انہوں نے نجانے کہاں کہاں سے مقروض ہو کر دو مرلے کا شاندار ہیر سیلون کھول لیا حالانکہ قینچی یارم کو ادھار کی صورت میں صرف محبت پر چلانی آتی ہے۔ اور اس کو مثل خنجر سینے میں گھونپنے کیلئے جو ہمارا ہی انتخاب کیا تو ہم بےساختہ چیخ اٹھے
“نہ یارم نہ ۔ ہماری زلف دراز تو صرف محبوب کے شانے پر بچھانے کیلیے ہے اسکو یوں سنگدلی سے کسی اناڑی کے ہاتھوں نظرِ تراش خراش نہ کریں گے”..
تبھی باقاعدہ ہیر ڈریسر سے بھکاری کے عہدے پر فائز ہو گئے اور منتوں پر اتر آئے۔ “دیکھو فاطمہ اگر تم نہ بیٹھو گی تو میرا ہاتھ کیسے صاف ہو گا؟ بھلا دوست ضرورت کے وقت کام نہ آئے تو کیا فائدہ ایسے طوطا چشم کا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ میری سب سے قریبی دوست ہی میری ماڈل بھی ہو”.

گو یارم کا “ہاتھ صاف” کرنے کا معاملہ کچھ کچھ ہمارے ذہن کے پردے پر مستقبل کی جھلک دکھا رہا تھا مگر دوستی جیسے مقدس رشتے پر یارم کے بدلتے ہوئے خیالات اور جذبات نے ہمارا دل پگھلا دیا۔ویسے بھی ایک موقع تو سب کا حق ہے کیا پتہ اسی بہانے یارم کی قسمت کا جام پہیہ بھی چالو ہو جائے۔ویسے”ماڈل” بننے کا خیال بھی کافی خوش کن تھا ۔

یارم کے ہیر سیلون پر ہمارا شاندار استقبال ہواکہ بہرحال ابھی تک کے اکلوتے و لاڈلے کسٹمر جو ٹھہرے۔ دیواروں پر جابجا رنگین ڈھانچے، ہڈیاں اور کٹے پھٹے انسانوں کے پوسٹر دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ہماری حیرت پر انہوں نے انکشاف کیا کہ انکے سیلون سے پہلے یہ کسی عطائی ڈاکٹر کا کلینک تھا اور خرچہ بچانے کیلئے انہوں نے پرانے پوسٹرز پر ہی اکتفا کر لیا۔ ویسے بھی ڈاکٹر اور ڈریسر میں فرق ہی کیا ہے؟ دونوں قینچی چلانا بخوبی جانتے ہیں۔۔۔۔ یہ پوسٹرز انکی کاروباری ساکھ کی ضمانت بےشک نہ سہی مگر انکی دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ مستقبل قریب میں یارم کا یہی حال ہونے والا تھا۔
پھر انہوں نے آگے بڑھ کر گلے میں ہار کی طرح ایک لمبا سا چغا ہمارے گردن گزار کیا اور نہایت عزت افزائی کے ساتھ ایک کرسی پر براجمان کروایا۔
ہمارے سامنے ہی یارم نے قینچی اٹھا کر بازو اوپر نیچے کر کے تھوڑی دیر خالی قینچی چلائی۔ ہمیں یہی لگا کہ وہ خود کو مشاق “نائی” ظاہر کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خوداعتمادی سے بولے کہ ” اصل میں پرانی قینچی ہے تو سوچا تھوڑا چلا کر فلو میں لے آؤں۔کہیں زنگ کی وجہ سے اَڑ ہی نہ جائے”.
یارم کی یہ بات سن کر ہم پر گھڑوں پانی تو پڑ ہی گیا مگر دل پر پتھر رکھ کر یارم کی “ماڈل” بننے کے علاوہ اب کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔۔
یارم نے کسی ماہر کی طرح پہلے ہمارے بالوں پر پانی چھڑک کر ہمیں بھیگی بلی کیا پھر بار بار ایک لٹ لے کر اس میں سےکنگھی گزارتے ہوئے بالوں کو آخری سرے سے پکڑ کر کچھ سوچتے اور چھوڑ دیتے۔ چند منٹ یہی “پریکٹس” رہی تو پوچھنا ہی پڑا۔۔کہ آخر رسمِ کٹائی کب شروع ہو گی۔ تب بولے “دراصل میں سوچ رہا ہوں کہ تم پر کون سا لُک اچھا لگے گا۔ تم بتاؤ کتنے کاٹنے ہیں”.
اگر دل کی بات بتانے کی اجازت ہوتی تو صاف ہی کہے دیتے کہ ارادہ تو آپکا پتہ کاٹنے کا تھا مگر پھر جی کڑا کر کہہ دیا کہ یارم یوں کیجیے “چِن” سے پہلا اسٹیپ لے لیجئے ۔۔۔

یارم نے آنکھیں بند کی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے ۔۔۔ اس لمحے ہمیں ان پر کسی قصائی کا گمان گزرا جو قبل از قربانی آنکھیں بند کر کے چھری پر دم کرتا ہے۔ پھر انہوں نے جو جھٹ پٹ قینچی چاروں سمت میں چلانی شروع کی کیا دیکھتے ہیں کہ ہر طرف بال میدان جنگ میں شہدا کی طرح گر رہے ہیں ۔ اس سے قبل کہ ہمیں کچھ سمجھ آتی۔۔ یارم نے کام تمام کر دیا۔اچھی طرح بال سکھا کر اپنے تئیں “سیٹنگ” کر کے ہمیں آئینے کے آگے کھڑا کیا اور فاتحانہ نظروں سے ہمارا جائزہ لیا۔ ہم نے بھی دل کڑا کر آئینے سے نگاہیں چار کیں اور چیخ روکنے کی ناکام کوشش کی۔

یہ چیخ خوشی کی چیخ ہرگز نہ تھی۔
“یارم یہ کیا بال تو چِن سے کاٹنے تھے؟ “
ہم نے نیم بین زدہ آواز میں کہا تو خود اعتمادی سے بولے
“ہاں تو چِن سے ہی شروع کیے ہیں”.
اناڑی سے اناڑی “ہیر ڈریسر” بھی جانتا تھا کہ “چِنِ کا مطلب ٹھوڑی کے ساتھ جبڑے جتنی لمبائی کا ہوتا ہے۔ مگر یارم کی چن آنکھوں کے نیچے سے شروع ہوتی تھی جس کے سبب اب ہمارے بال تار پر ٹنگے کپڑوں کی طرح ماتھے پر عجب سی جھالر بنا رہے تھے۔ اوپر سے انہوں نے درمیان سے جو مانگ نکال کر اسٹائل بنایا اس سے ہمارا حلیہ تیرے نام کے سلمان خان جیسا معلوم ہو رہا تھا۔ ہمیں ماڈل سے زیادہ انہوں نے”رول ماڈل” بنا دیا تھا۔
مرتے کیا نہ کرتے۔۔۔ہم نےدکھی دل سے ایک آخری نگاہ انکے سیلون پر ڈال کر یارم کو الوداع کہا کیونکہ ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ ہماری اس عظیم قربانی کے باوجود انکا یہ کاروبار بھی نہیں چلنا کہ یارم ہمارے دوست اپنی جگہ مگر قسمت سے واقعی منحوس انسان ہیں۔۔۔!!!

فاطمہ عمران

آئٹم

ہمارے پڑوس میں ایک آنٹی رہتی تھیں۔ انکا برملا کہنا تھا کہ شیخ رشید ان پر مرتا ہے اور انہی کے چکر میں آج تک کنوارہ ہے۔ شیخ رشید سے شادی نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود کسی اور کو پسند کرتی تھیں لہذا جس کو پسند کرتی تھیں عین اُس سے شادی کے دن بھاگ کر پھر اپنے موجودہ شوہر سے شادی کر لی۔
ملاقات کے بعد پورے دو گھنٹے تک بولنے کا موقع نہ دینے کے بعد شکایت کرتی تھیں کہ اگلی تو بولتی ہی نہیں بس وہی کہے جاتی ہیں۔ اور جوں ہی اگلی بولنے کیلئے منہ کھولتی جھٹ سے کہتیں “پہلے میری تو سن لو”…
انتہائی فیمنسٹ خاتون تھیں۔ بقول انکے ایک بار شوہر نے” غلطی” سے انکو تھپڑ جڑ دیا تو انہوں نے شوہر کو لاتیں اور ٹھڈے مارنے کے بعد تھانے جا کر پرچہ درج کرا دیا اور پھر باقاعدہ سب کے سامنے معافی منگوا کر ہی کیس واپس لیا۔
یہ بھی بتاتی تھیں کہ صبح اٹھ کر نماز پڑھنے کے بعد سب سے پہلا کام شوہر کے پرس سے سارے پیسے چوری کرنے کا کرتی ہیں کیونکہ اس سے نہ صرف ثواب ملتا ہے بلکہ خاوند بھی “اوقات” میں رہتا ہے۔ خود فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر شوہر کو پیچھے بٹھاتی تھیں۔
ویسے بچارے شوہر کے عادتوں سے بھلے مانس نہ دکھنے اور شکل سے بن مانس دکھنےکے باوجود ہر خوبصورت لڑکی کے بارے میں محترمہ کا یہی خیال تھا کہ کلموہی دولت کے چکر میں انکے شوہر پر مرتی ہے۔
خاوند پر نظر رکھنے کے سلسلے میں انکی پانچ میں سے چار “گرل فرینڈز” تو وہ رانگ نمبرز سے خود ہی تھیں۔ ۔ ایک دن خاوند کو ہوٹل میں کسی خاتون کے ساتھ بیٹھے دیکھ لیا توپھر انہیں منانے کیلئے شوہر کو دوگنی تعداد میں کھانا آرڈر کر کے یہ ثابت کرنا پڑا کہ وہ اصل محبت انہی سے کرتے ہیں۔
اگر لڑکی شادی کے بعد پورے دو سال تک لال رنگ نہ پہنتی تو جھٹ سے بتا دیتی تھیں کہ شادی سے خوش نہیں ہے۔ اپنے موٹاپے کا سارا الزام خاوند پر دھرتی تھیں کہ موا چمیاں دیتے وقت سانس اندر لینے کے بجائے غبارے کی طرح ان میں بھر دیتا ہے۔اب اللہ جانے اس میں کتنی حقیقت تھی؟

بڑھاپا

جب نوجوان نسل بےحیا لگنے لگے تو سمجھ جائیں کہ آپ پر بڑھاپا آ چکا ہے۔ ویسے بھی بڑھاپے میں نوجوانی کے لطیف جذبات “آنکھ مٹکا” اور شوخیِ طبعیت “بےشرمی” لگنے لگتی ہے۔
جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے ہر نوجوان آپ کو لاپرواہ اور کھلنڈرا دکھتا ہے۔اب آپ اپنی زندگی ‘ان ڈو’ کر کے واپس نوجوان ہونے سےتو رہے سو آپ دن رات اس فکر میں غلطاں ہو جاتے ہیں کہ کس طرح دوسرے جوانوں کو آپ کی نوجوانی کے ‘ری ڈو’ پر آمادہ کیا جائے۔پھر نوجوان خود اپنی زندگی سے اتنا کھیلواڑ نہیں کرتے جتنا بوڑھے نوجوانوں سے۔

کئی ضعیف پاؤں بےشک قبر میں لٹکائے ہوں مگر ٹانگ دوسروں کے معاملات میں اڑائے رکھنے کے قائل ہیں۔کچھ بوڑھے لوگوں کو باقاعدہ شکایت رہتی ہے کہ جوان لوگ ان سے صلاح مشورے کے بغیر اپنی زندگی خراب کرنے پر تلے ہیں۔ حالانکہ اگر انکے مشورے کو بھی شامل کر لیا جاتا تو کم از کم مطلوبہ نتائج بےشک نہ سہی مگر فرمانبرداری پر ثواب تو مل ہی جاتا ۔
کئی لوگ ساری جوانی کڑی دھوپ کی طرح گزار کر بڑھاپے میں باقاعدہ “گھر میں بزرگوں کا سایہ باعث رحمت ہے” کی کمپین چلاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو جوان بندے کی ہنسی بھی مشکوک لگتی ہے کہ کوئی بات چھپانے کیلئے ہنس رہا ہے یا ان پر ہی ہنس رہا ہے۔
عمر کے ادوار گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان سب کچھ بھولنے لگتا ہے ماسوائے اس کے کہ اس کا اپنا ماضی کس قدر تابناک تھا۔ ایسے میں کرتوت جتنے سیاہ ہوں لگام اتنی لال ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔
عمر رسیدگی کے ساتھ جو عقلِ سلیم آپ پر نازل ہوتی ہے اس سے اور کچھ نہ سہی مگر آپ اپنے ماضی کی تمام تر اغلاط کو تجربے کا نام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔لہذا جب بھی کوئی بوڑھا شخص آپ کو اپنے تجربات سے منور کرنے کی کوشش کرے سمجھ جائیں کہ ماضی میں ان کی اپنی بتی اسی سبب گُل رہی۔
بعض لوگ بڑھاپے کو باقاعدہ موذی “بیماری ” کا درجہ دے کر دوسروں کو چوبیس گھنٹے اپنی عیادت پر قائل کرتے نظر آتے ہیں۔
بڑھاپے میں کسی نقصان سے بچنے کیلئے پرہیز بہت ضروری ہے خاص طور پر جوانی سے۔ویسے ہمارے ہاں بوڑھا ہونا نہیں بلکہ بوڑھا دکھنا جرم سمجھا جاتا ہے خاص طور پر خواتین کے لیے۔
اگر آپ بڑھاپے کے اثرات سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ جوانی میں ہی داغِ مفارقت دے جائیں۔
فاطمہ عمران