کٹھ پتلی تماشا

ہلکی ہلکی سی ٹھنڈی ہوا اسکے گالوں کو چھوتی تو اسے لگتا جیسے یہ ہوا نہیں خوشی کے ننھے ننھے سے گالے ہیں جو اس کی روح میں اتر رہے ہیں۔ ۔ اچانک ہی اسے اپنا آپ ہلکا پھلکا سا محسوس ہو رہا تھا۔ مستقبل کا یہ خیال ہی اتنا خوش کن تھا کہ ہواؤں کی سرسراہٹ میں بھی جیسے کسی دیو مالائی گیت کا ساز ہو۔۔۔ ایک ایک قدم اسے اس زندگی سے دور لے جا رہا تھا جسے اب وہ مزید نہیں جینا چاہتا تھا۔ یہ احساس اس پر حاوی ہوتا جا رہا تھا کہ اب کوئی زنجیر اور کوئی بیڑی اسے بندھے رہنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔
گلی کا موڑ مڑتے ہی اسکی نظر پان کھاتے ایک آدمی پر پڑی اور بے اختیار اسکے منہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا۔ “یاد رکھنا ۔امی بہت ماریں گی” بچپن میں ایک بار وہ پان خرید لایا تھا اور ماں نے اسکی یوں دھنائی کی جیسے وہ چرس لے آیا ہو گھر میں۔ آخر میں اسکی ماں نے زور سےاسکا کان پکڑ کر بولا تھا۔ ۔ “آئندہ ایسی کوئی حرکت کی تو یاد رکھنا امی بہت ماریں گی” پان کے بدلے مار کا یہ سودا اسے بہت مہنگا لگا۔ اور پان ہی کیا وہ ہر ایسی چیز سے دور ہو گیا جس سے اسکی ماں کو اس کی پٹائی کا پھر موقع مل سکتا ۔۔
موڑ مڑ کر ٹیکسی سٹینڈ کی طرف مڑتے ہوئے اس کا ذہن ماضی میں کھو گیا۔ اسے یاد آیا کہ کیسے اسکا باپ بادشاہ کی طرح ایک فیصلہ سناتا اور اسکی ماں کنیز بن کر کورنش بجا لاتی۔ اسے حیرت ہوتی کہ اسکی ماں یہ سب کیسے کر لیتی ہے۔؟کیا واقعی اسکی اپنی کوئی مرضی نہیں یا مجازی خدا کی پوجا میں اپنی خواہشات کو اپنا نفس سمجھ کر قربان کیے بیٹھی ہے۔ ؟عجیب عورت ہے اسکی ماں بھی۔ ۔ ٹیکسی سٹینڈ کے پاس پہنچ کر اس نے پتہ بتانے اور بھاؤ تاؤ کرنے کے بعد ایک ٹیکسی لی اور اس میں سوار ہو گیا۔ سوچوں کا سلسلہ پھر وہیں سے جڑ گیا۔ اسکی ماں خود تو سر تسلیم خم کرتی سو کرتی لیکن اس پر بھی تمام فیصلے لاگو کیے رکھتی۔ ایسا نہیں تھا کہ اسکا باپ بہت سخت مزاج تھا۔بس تھوڑا اصولوں کا مارا آدمی تھا۔ اور کبھی کبھی اسے ترس بھی آتا تھا ایسے لوگوں پر جو پچارے خود ہی اپنے اصولوں کی بنائی دیوار میں قید رہتے رہتے ایک دن اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
اس نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی لیکن اس میں اسکا  کچھ خاص کمال نہ تھا۔بس باپ نے اچھے سکول میں داخل کرا دیا۔ ۔ اسکی فیس بھرتا جاتا اور ماں پند و نصائح کے ڈھیر لگائے رکھتی ۔کسی نیم ملا کی طرح اسے جہنم اور جنت کے درمیان کی سولی پر لٹکائے رکھتی اور وہ لٹکا رہتا۔ یہاں تک کہ اسکے باپ نے کہا کہ وہ انجینیر بنے گا اور اس نے بھی بن کر گویا انکے تمام احسانوں کا بدلہ اتار دیا۔
ٹیکسی سگنل پر رکی تو سڑک پر کھڑا ایک آدمی بھاگتا ہوا گجرے لے کر آیا۔ ۔ “صاحب گجرے لے لو۔ ۔اپنی سوہنی وہٹی واسطے”
سوہنی ووہٹی۔ ۔ ہاہا بے اختیار اسکی ہنسی نکل گئی۔ ۔ سوہنی ووہٹی ۔ ۔ یہ لفظ سوچتے ہی تصور کے پردے پر ایک نازک، گہنوں سے لدی پھندی کومل سی دلہن کی جو تصویر ابھرتی ہے ۔ ۔ ہما اس پر کہیں سے پوری نہیں اترتی تھی۔ لیکن کیا کرتا ماں کی دہائیاں اور باپ کے اصول آڑے آ گئے۔ ۔ چچا کو دی گئی زبان کی لاج رکھنے کے لیے اسکی محبت کو قربان ہونا پڑا۔ ۔
ہما کوبچے نہیں چاہیے تھے کیونکہ فی الحال وہ اس جھنجٹ میں نہیں پڑنا چاہتی تھی سو فی الحال وہ دور ہی تھا اس جھنجھٹ سے۔ ۔ ۔ کیا بچے واقعی جھنجھٹ ہوتے ہیں؟ کیا وہ بھی اپنے ماں باپ کے لیے ایک جھنجٹ تھا۔ ۔ ؟ لیکن کیوں ہوتا؟ اس نے تو ماں سے ہمیشہ سر تسلیم خم کرنا ہی سیکھا تھا۔ اس پر یہ جملہ کہ امی بہت ماریں گی۔ ہمیشہ اسکی سوچ اور فیصلوں کا طواف کرتا آیا تھا۔
لیکن خیر آج تو وہ سب سے آزاد ہو آیا تھا۔ جب باپ نے سنتے ہی غصے سے اسکی ماں کو دیکھ کر بولا”یہ تربیت کی ہے تم نے اسکی” تو وہ چاہنے کے باوجود بھی نہ بول پایا کہ ماں آج تو بول۔ ۔
لیکن ماں کی خشمگیں نگاہیں دیکھ کر وہ بچپن کی طرح سہم سا گیا۔ ۔ بیوی نے الگ واویلا مچا دیا کہ اس کلنک کے ٹیکے سے تو وہ علحدگی کو ترجیح دیتی ہے۔ ۔ اس نے سوچا۔ ۔ پھر فیصلہ لیا اور گھر سے نکل آیا۔۔۔۔
ٹیکسی مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر رک چکی تھی ۔وہ کرایہ دے کر اترا اور دو منٹ کے لیے رک کر ادھر ادھر خالی نظروں سے دیکھنے لگا۔ ۔ اچانک اسے تھکن کا احساس ہونے لگا۔ ساری خوشی کافور ہونے لگی۔ پھر کچھ سوچ کر چپ چاپ مریل قدموں سے وہ ساتھ والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ ۔ کوئی سٹوڈیو تھا یا شاید کوئی تھیٹر۔ ۔ سامنے عجیب سے حلیوں میں کچھ لوگ سٹیج پر محو رقصاں تھے۔ دائیں طرف سٹیج کے نیچے موجود کرسیوں کی پہلی قطار پر ایک آدمی ہاتھ میں کلپ بورڈ اٹھائے پنسل سے کاغذ پر کچھ لکھ رہا تھا. ۔ سلیکشن چل رہی تھی۔ ۔ ۔ وہ تھکے قدموں سے اس آدمی کے پاس پہنچا اور مدعا بیان کیا۔ ۔ اوپر سے نیچے تک اسے دیکھتے ہوئے وہ آدمی بولا۔ ۔ “سر شکل سے تو آپ معقول انسان لگتے ہیں لیکن حلیے سے اس فیلڈ کے نہیں لگتے۔ خیر رکھا تو آپ کو جا سکتا ہے۔پر آپ شیور ہیں نا کہ آپ کٹھ پتلی ڈانسر بننا چاہتے ہیں؟ کوئی تجربہ ہے آپکا؟ ہے بھی کہ نہیں؟ ”
“ہے نا” اس نے اطمینان سے جواب دیا
مزید حیرت سے آدمی اسے دیکھتے ہوئے بولا “کتنا”؟
“عمر بھر کا”
اور اسے لگاجیسے اندر کی گھٹن زائل ہونے لگی ہو۔۔۔

Leave a comment